عدالتِ عالیہ سندھ کی اردو اور سندھی ورژن ویب سائٹ کی بہتری کے لئے آپ کی مثبت تجاویز کو خوش آمدید کیا جائے گا اور اس ضمن میں ہماری حوصلہ افضائی ہوگی۔ [email protected]

تعارف سندھ ہائی کورٹ

تاریخ:

صوبہ سندھ کے لئے ایک صدر عدالت بمبئی ایکٹ XII آف ۱۸۶۶ء کے تحت قائم کی گئی تھی ۔ یہ صدر عدالت دیوانی اور فوجداری معاملات میں سندھ کے لئے اپیل کی اعلیٰ ترین عدالت تھی ۔جسکی صدارت ایک جج کی تھی جسکو عدالتی کمشنر سندھ کہا جاتا ہے ۔ ۱۹۰۶ء میں بمبئی ایکٹ XII آف ۱۸۶۶ء کا سندھ عدالتی ترمیمی ایکٹ (بوم۔ I آف ۱۹۰۶ء) کے تحت ترمیم کیا گیا تھا اور صدر عدالت عدالتی کمشنر سندھ میں تبدیل کی گئی تھی جو کہ تین یا زیادہ ججوں پر مشتمل تھی ۔ علاوہ دیوانی اور مجرمانہ معاملات میں سندھ کیلئے اپیل کی اعلیٰ ترین عدالت ہونے کی وجہ سے ۔ کراچی میں عدالت ، ضلعی عدالت اور سیشن عدالت تھی ۔مورخہ ۲۰ اگست ۱۹۲۶ء کو سندھ عدالتی ایکٹ (بوم۔ VII آف ۱۹۲۶ء) صوبہ سندھ کے چیف کورٹ کے قیام کے لئے قانون منظور کیا گیا تھا ۔

حکومت انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے زیرِ عمل آنے پر مورخہ یکم اپریل ۱۹۳۷ء کو سندھ ایک علیحدہ صوبہ بن گیا اور عدالتی کمشنر سندھ کے ججز کو برطانوی حکومت کی طرف سے شاہی فرمان کے ذریعے مقرر کیا گیا تھا ۔

جیسا کہ سندھ عدالتی ایکٹ ۱۹۲۶ء بمبئی ہائیکورٹ کے مخصوص / خاص خطوط کی قریب ترین لائنوں کی پیروی کے طور پر یہ محسوس ہوا تھا کہ اس ایکٹ کو بروئے کار لاکر صوبہ کی فوری اشد ضرورت پر مطمئن کرسکیں ۔ بالآخر حکومتِ انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء جو کہ مناسب طور پر پارلیمنٹ میں ترمیم کیا تھا اور مورخہ ۱۵ اپریل ۱۹۴۰ء کو سندھ عدالتی ایکٹ ۱۹۲۶ء زیرِ عمل لایا گیا تھا اور عدالت کمشنر سندھ اُس دِن سندھ چیف کورٹ بن گئی تھی ۔

۱۹۰۷ء میں عدالت ایک عدالتی کمشنر اور تین ایڈیشنل عدالتی کمشنر پر مشتمل تھی تاہم ۱۹۳۵ء میں ایڈیشنل عدالتی کمشنر کی تعداد بڑھاکر تین تا چار کردی گئی اور اُس سال مندرجہ ذیل ججز تھے :

سندھ کے عدالتی کمشنر :- دی-ایم-فوررذ ، ای-ایس-کیو، آئی-سی-ایس(ریٹائرڈ مئی ۱۹۳۵ء)،گوڈفرے ڈیوس، ای-ایس-کیو،آئی-سی-ایس(جون ۱۹۳۵ء سے)،ایڈیشنل کمشنر آف سندھ رُوپ چند بلادم، ای-ایس-کیو، بی-اے، ایل-ایل-بی ڈاڈیوا سی ۔ میٹھا ، ای-ایس-کیو، ایم اے، ایل ایل بی ایم-اے، ہاویلی والا ، ای-ایس-کیو، بار-ایٹ-لاء ، چارلس-ایم-لوبو، ای-ایس-کیو، بی-اے، ایل-ایل-بی (نگران) ۔

۱۹۳۷ء میں کونسل میں حکم کی طرف سے جوڈیشل کمشنرز، جج کے طور پر نامزد کیا گیا تھا ۔ اہم بات یہ ہے کہ پہلی بار ۱۹۳۷ء ایک مسلمان جناب ہاتم بی ۔ طبیب جی، ماہرینِ قانون کو قائم مقام جج کے طور پر عدالت میں مقرر کیا گیا ۔

۱۹۴۷ء میں جناب ہاتم بی طیب جی چیف جج، سندھ چیف کورٹ مقرر ہوئے اور عدالت مندرجہ ذیل ججوں پر مشتمل ہوئی ۔ محترم جناب ڈینس نَیل اوٰ سلیون ، ماہر قانون، محترم جناب ٹی۔وی۔تھادانی ، ماہر قانون محترم جناب جورج بیکسنڈل کونسٹینٹائن ، بی اے (اوکسن) آئی سی ایس ، ماہر قانون محترم جناب حسن علی جی آغا ، بی-اے ایل ایل بی، محترم جناب منکشاء رستم جی مہر ، آئی سی ایس (آفج)۔

ہائی کورٹ، مغربی پاکستان کے قیام کے وقت ججوں کی تعداد کراچی بینچ میں اتنی ہی تھی بعد میں بڑھا کر ۱۵ کردی گئی ۔ سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹز کی علیحدگی کے وقت ۱۲ جج سندھ ہائی کورٹ میں مقرر ہوئے ۔ جبکہ ۳ جج بلوچستان ہائی کورٹ میں مقرر ہوئے ۔موجودہ منظور شدہ ججوں کی تعداد ۴۰ ہے ۔

۱۹۲۳ء میں موجودہ مرکزی عمارت کی تعمیر شروع کی گئی لاگت ۳۹،۷۵،۲۴۸ روپے مگر تعمیر ۲۲-۱۱-۱۹۲۹ میں مکمل ہوئی جسکی لاگت ۳۰،۳۵،۰۰۰ روپے لگی ۔ ۱۹۲۹ء میں توسیع کے لئے کچھ شرائط کے ساتھ ۵ ججوں کے لئے بنائی تھی جس میں یہ عمارت اب بینچوں، عدالت اور ۱۸ ججوں کے چیمبرز کی جگہ رکھتی ہے ۔ کچھ جج اپنے چیمبر میں ہی عدالت رکھتے ہیں ۔ علاوہ اسکے یہ سہولیات اٹارنی جنرل ، ڈپٹی اڑارنی جنرل ، فیڈرل شریعت کورٹ رجسٹری، ایڈوکیٹ جنرل سندھ ، اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل سندہ اور ہائی کورٹ بار لائیبریری کے دفاتر کو فراہم کرتے ہیں ۔ قبل از منتقلی سپریم کورٹ رجسٹری ، ہائی کورٹ احاطے میں دو کورٹ روم اور تین چیمبر سپریم کورٹ ججوں کے زیرِ استعمال تھے ۔ جب سپریم کورٹ کراچی کو بھرپور طاقت حاصل ہوئی تو کچھ اور چیمبرز سپریم کورٹ کے ججوں کوفراہم کئے گئے ۔

۱۹۷۴ء میں ایک عمارت جو کہ ہائی کورٹ کے شمال مشرق کی جانب احاطے میں تعمیر کی گئی جسکی لاگت ۴۔۴ لاکھ روپے تھی مگر اس صورتحال کو کم نہیں کیا اور مزید دفتر کیلئے جگہ فراہم کرنا ہے جس میں سیکریٹیری ، وزارتِ انصاف، پارلیمانی اُمور ، سرکاری وکیل،سرکاری قائم مقام، خصوصی بینکنگ کورٹ ، وفاقی شرعی عدالت کی برانچ اور سندھ بار کونسل ۔ اسطرح، یہ دیکھا جائے گا کہ رہائش کی شدید کمی ہے ۔

کچھ سال پہلے صوبائی حکومت نے ایک لاکھ روپے کی رقم اس عمارت کی تعمیر کیلئے بطور ٹوکن مختص کی ہے جو کہ ہائی کورٹ کی جنوب مشرق جانب واقع ہے ۔ یہ عمارت ۱۹۸۴ء میں ۱۳۔۳۵ لاکھ روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی ۔ اب یہ رقم زیادہ ہو سکتی ہے ۔ جب تک وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت ترجیہی بنیادوں پر رقم فراہم کرے جس سے بلڈنگ کی تعمیرِ نو ہو ۔ یہ عمارت کی تعمیر ایک یا دو سالوں میں مکمل نہیں کی جاسکتی ہے ۔

پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ء میں ۱۸ویں ترمیم کے بعد ایک جج آئین کے آرٹیکل ۱۷۵ (اے) کے تحت مقرر ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل ۱۷۵ (اے) کے تحت ایک عدالتی کمیشن جو کہ عزت مآب جناب چیف جسٹس آف پاکستان کی سفارش سے بنایا جاتا ہے جس میں اہلیت رکھنے والے افراد کو عدالت اعلیٰ ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا جاتا ہے اور یہ نامزدگی پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیج دی جاتی ہے اور پارلیمانی کمیٹی اس سفارش کو ۱۴ یوم کے اندر منظور کرتی ہے ۔دوسری صورت میں یہ سفارش تصدیق کے ساتھ منظور تصور کی جائے گی یہ نامزد کردہ نام وزیرِاعظم کو بھیجے جا تے ہیں جو صدرِ پاکستان کو تقرری کیلئے بھیجتا ہے ۔

کسی بھی شخص کو ہائی کورٹ کا جج مقرر نہیں کیا جاتا ہے جبتک وہ پاکستان کا شہری ہو جس کی عمر ۴۰ سال ہو اور ہائی کورٹ کا وکیل ہو جس کی پریکٹس ۱۰ سال کی ہو یا وہ پاکستان کے ضلع کا عدالتی جج ہو جس نے تین سال کا عرصہ گزارہ ہو ۔ ہائی کورٹ کا جج اپنے فرائض دیتا رہتاہے جب تک اُس کی عمر ۶۲ سال کی نہ ہوجائے یا جب تک وہ استعفٰی نہ دے یا آئین کے مطابق اپنے دفتر سے دستبردار نہ ہو ۔
نوٹ:- یہ تفصیل آئین کے آرٹیکل ۱۷۵ (اے)جج کی تقرری سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ (www.supremecourt.gov.pk) پر دیکھی جا سکتی ہے ۔

سندھ ہا ئی کورٹ کی مرکزی عدالت کراچی میں ہے ۔ سکھر میں بینچ اور لاڑکانہ اور حیدرآباد میں سرکٹ کورٹ ہیں ۔ ہائی کورٹ کی دوسری جگہوں پر بھی بینچز بن سکتی ہیں جیسا کہ عزت مآب گورنر کابینہ اور عزت مآب چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے اصلاح اور مشورے سے جگہ کا تعین ہوسکتا ہے ۔